اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہفتے کے روز پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو ہدایت جاری کی ہیں کہ سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قواعد جمع کرائے اور خبر دار کیا ہے کہ آئینی عدالتیں حکومت کو میڈیا پر ایسی کوئی پابندی عائد کرنے نہیں دیں گی جیسے پڑوسی ملک میں ہورہی ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ
کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے میڈیا کے اخلاقیات اور ضوابط کے حوالے سے کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ تعمیری تنقید قوم کو کھڑا کرنے کے لیے ضروری ہے۔انہوں نے سوال کیا کہ ‘کوئی بھی تنقید سے خوفزدہ کیوں ہوگا؟’۔معروف صحافی حامد میر نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے نوٹی فکیشن جاری کیا ہے تاہم وفاقی وزرا ان ریگولیشنز سے متعلق نہیں جانتے اور انہوں نے عوام کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ یہ وفاقی کابینہ کے اتفاق رائے کے بغیر ہی جاری کیا گیا ہے۔پی ٹی اے اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے عالمی و قومی سطح پر تنقید کے بعد ان ضوابط پر نظر ثانی کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ ان ضوابط کا سرکاری جریدے میں نوٹی فائی ہونے کے بعد سے اب تک نفاذ نہیں ہوا ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی اے اور پیمرا کے نمائندگان کو ہدایت کی کہ ان ضوابط کی تفصیلات جمع کرائیں اور سماعت کو آئندہ روز تک کے لیے ملتوی کردیا۔سوشل میڈیا قواعد کو چیلنج کرنے والے وکیل بیرسٹر جہانگیر جدون نے عدالت کو بتایا ک جنگ گروپ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے بعد پیمرا نے مبینہ طور پر کیبل آپریٹرز سے جیو ٹی وی کی نشریات بند کرنے کا کہا ہے جس کے بعد چینل یا تو بند کردیا گیا ہے یا پھر اس کا نمبر سب سے آخری کردیا گیا ہے۔جب حامد میر نے نشاندہی کی کہ بھارتی حکومت نے بھی ایک روز قبل دو چینل بند کیے ہیں تو چیف جسٹس من اللہ نے واضح کیا کہ آئینی عدالت پاکستان میں اس طرح کا کوئی بھی اقدام روکے گی۔حامد میر نے موقف اپنایا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے عدالتی احکامات کو خاطر خواہ میں نہیں لا رہی اور اس نے میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کیا ہے جو تفتیشی افسر کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے حال ہی میں احکامات جاری کیے تھے کہ جس میں چند ملزم کی گرفتاری کے حوالے سے چند شرائط طے کیے گئے تھے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت نے قانون کی تشریح کی تھی اور اب یہ متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اس کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کریں۔انہوں نے اسے انتباہی قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو اس سنگین صورتحال کا اندازہ ہوجانا چاہیے۔
پاکستان نیوز انٹرنیشنل (پی این آئی) قابل اعتبار خبروں کا بین الاقوامی ادارہ ہے جو 23 مارچ 2018 کو برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں قائم کیا گیا، تھوڑے عرصے میں پی این آئی نے دنیا بھر میں اردو پڑہنے، لکھنے اور بولنے والے قارئین میں اپنی جگہ بنا لی، پی این آئی کا انتظام اردو صحافت کے سینئر صحافیوں کے ہاتھ میں ہے، ان کے ساتھ ایک پروفیشنل اور محنتی ٹیم ہے جو 24 گھنٹے آپ کو باخبر رکھنے کے لیے متحرک رہتی ہے، پی این آئی کا موٹو درست اور بروقت اور جامع خبر ہے، پی این آئی کے قارئین کے لیے خبریں، تصاویر اور ویڈیوز انتہائی احتیاط کے ساتھ منتخب کی جاتی ہیں، خبروں کے متن میں ایسے الفاظ کے استعمال سے اجتناب برتا جاتا ہے جو نا مناسب ہوں اور جو آپ کی طبیعت پر گراں گذریں، پی این آئی کا مقصد آپ تک ہر واقعہ کی خبر پہنچانا، اس کے پیش منظر اور پس منظر سے بر وقت آگاہ کرنا اور پھر اس کے فالو اپ پر نظر رکھنا ہے تا کہ آپ کو حالات حاضرہ سے صرف آگاہی نہیں بلکہ مکمل آگاہی حاصل ہو، آپ بھی پی این آئی کا دست و بازو بنیں، اس کا پیج لائیک کریں، اس کی خبریں، تصویریں اپنے دوستوں اور رابطہ کاروں میں شیئر کریں، اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو، ایڈیٹر
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں