لندن(پی این آئی) بیشتر ممالک لاک ڈاؤن کے ذریعے کورونا وائرس کا پھیلاؤ روک کر ویکسین کے انتظار میں ہیں کہ کب ویکسین آئے اور اس موذی وباءسے نجات ملے اور پاکستان جیسے چند ممالک ایسے ہیں جو بظاہر ’ہرڈ امیونٹی‘ کے طریقے پر عمل پیرا ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ کورونا وائرس میں مبتلا ہوں اور ان میں
اس کے خلاف قوت مدافعت آئے ، جس کے بعد اس کا پھیلاؤ رک جائے گا اور باقی بچ جانے والی تیس سے چالیس فیصد آبادی س سے محفوظ ہو جائے گی۔ اب کنگز کالج لندن کے سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں ان دونوں طریقوں پر عمل پیرا ممالک کے لیے انتہائی تشویشناک خبر سنا دی ہے۔ میل آن لائن کے مطابق سائنسدانوں نے کورونا وائرس سے صحت مند ہونے والے سینکڑوں مریضوں میں اس کے خلاف ’قوت مدافعت‘ کا جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ اس وباءکے خلاف قوت مدافعت مستقل نہیں ہوتی اور چند ماہ میں ختم ہو سکتی ہے، جس کے بعد اس شخص کو دوبارہ کورونا وائرس لاحق ہو سکتا ہے۔سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ ”تجربات میں ان صحت مند ہونے والے مریضوں میں وائرس کے خلاف قوت مدافعت زیادہ دیر تک برقرار رہی جن میں اس کی علامات زیادہ سنگین ہوئی تھیں اور وہ وینٹی لیٹر تک جا پہنچے تھے۔“ ان نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر کیٹی ڈوریس کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر ایک بار تیار ہونے والی ویکسین بھی ہمیشہ کے لیے کارگر ثابت نہیں ہو گی بلکہ اسے ہر سال نئے فارمولے سے تیار کرنا پڑے گا، کیونکہ غالب امکان ہے کہ کورونا وائرس بھی عام نزلے زکام کی طرح ایک معمول کی بیماری بن جائے گی اور ہر سال اس کا حملہ ہوتا رہے گا۔ چونکہ یہ وائرس اپنے اندر میوٹیشنز لاتا اور خود کو تبدیل کرتا رہتا ہے چنانچہ اس کی ویکسین کو بھی ہر سال اسی لحاظ سے بدلنا پڑے گا۔کنگز کالج کے سائنسدانوں نے اس تحقیق کے نتائج کی روشنی میں ایک گراف تیار کیا ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ کورونا وائرس سے صحت مند ہونے والے مریضوں کے جسم میں بننے والی اینٹی باڈیز کتنی دیر تک باقی رہتی ہیں۔ گراف کے مطابق کسی مریض میں کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہوتے ہی اس کے جسم میں اینٹی باڈیز بننی شروع ہو جاتی ہیں اور 35سے 40دن تک اینٹی باڈیز کا لیول اپنے عروج کو پہنچ جاتا ہے۔ اس کے بعد جسم میں ان کا لیول کم ہونا شروع ہوجاتا ہے اور لگ بھگ 100کے بعد مریض کے جسم میں اینٹی باڈیز تقریباً ختم ہو جاتی ہیں۔تاہم اس گراف کا تعلق مریض میں کورونا وائرس کی علامات سے ہے۔ جس مریض میں علامات جتنی زیادہ سنگین ہوں گی اس کے جسم میں بننے والی اینٹی باڈیز زیادہ دیر تک باقی رہیں گی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں