عمران خان بے پناہ مقبولیت کے باوجود ناکام کیوں؟ حفیظ اللہ نیازی کا دلیرانہ تجزیہ

لاہور ( پی این آئی ) معروف کالم نگار ، تجزیہ کارحفیظ اللہ نیازی نے انکشاف کیا ہے کہ ” حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس وقت کی قلت ہے۔ الیکشن اکتوبر میں ہوں یا نومبر میں ، سر پر ہیں جبکہ عمران خان کو اپنی موجودگی میں فوری انتخابات کی شدید طلب ہے۔ پچھلے ایک سال سے ہر جائز وناجائز حربہ استعمال کر چکے، ناکامی نصیب بنی۔بالآخر ساری اُمیدیں سپریم کورٹ سے بندھ چکی ہیں”۔

اپنے کالم بعنوان “عمران خان اور رول آف لا!” میں حفیظ اللہ نیازی مزید لکھتے ہیں کہ آڈیو لیکس کا سلسلہ چھپے کھلے دہائیوں سے جاری ہے۔لیکس کی اخلاقی سماجی قانونی حیثیت سے قطع نظر ، چند مہینوں سے سوشل میڈیا پر تہلکہ مچانے والی آڈیو لیکس نے حیران رکھا نہ پریشان کیا کہ یہ پُرانا ، آزمودہ طریقہ ہماری قومی خصلت کا جزولاینفک بن چُکاہے۔ دوستوں ، رشتہ داروں کا نظام ریاست پر اثرانداز رہنا بھی کبھی ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ مفادات کیلئےدباؤ میں لانا ، ہمارے نظام اور اداروں کا COMPROMISED ہونا ثابت ہے۔مجھے چیف جسٹس کی ساس اور تحریک انصاف کے وکیل خواجہ طارق رحیم کی بیگم کی آڈیو لیکس کی گفتگو سے غرض ہے۔ عدالت کے سامنے ایسا مقدمہ جس نے ملکی سیاست میں ہیجان برپا کر رکھا ہو، اس پر خوشدامن کا اثر انداز ہونا میرے لئے تشویشناک ہے۔ عمران خان بارے نیک خواہشات، دُعائیں وارفتگی جائز ہے، مخالفین کیلئے بددُعائیں بھی اچنبھے کی بات نہیں۔ گفتگو کا ایسا حصہ جس میں چیف جسٹس صاحب کیلئے مناجات سے بڑھ کر پیغامات، توقعات، خواہشات کا وقف رہنا انتہائی قابل گرفت ہے ۔حفیظ اللہ نیازی لکھتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں سچ اور اخلاص سے عاری اوصاف رکھنے والے عمران خان پہلے نہیں البتہ ایک دلچسپ اضافہ ضرور۔ اس سے پہلے ان سے ملتے جُلتے چند کردار شیخ مجیب الرحمان، ذوالفقار علی بھٹو اور الطاف حسین نادر نمونہ رہے ہیں۔ ویسے تو پچھلی چند دہائیوں سے جتنے بھی نمایاں سیاستدان متعارف ہوئے، یکسوئی سے سچ، اخلاص اور اُصول پرستی سے نابلد رہے ہیں۔ عمران خان ممیز اس لئے کہ ایسے اُصول و ضوابط اور ایسی روایت کے کسب کو کمال کا درجہ دے رکھا ہے۔اس سے پہلے شاید ہی کسی دوسرے میں اس شدت اور کثرت سے تضادات دیکھنے کو ملے ہوں ۔ ایک موقع پر جن اوصاف حمیدہ کو اپنی طاقت، خصلت، منشور بتاتے ہیں ، دوسرے موقع پر اُنہی کو روندتے ہیں۔

اور پھر دوبارہ سے قانون کی حکمرانی، عدلیہ کا احترام، اداروں پر اعتماد،اسلامی ٹچ و مشرقی روایات کی پاسداری پر تفصیلی بھاشن دینے سے ہچکچاتے نہ شرماتے ہیں۔بین ہی آج عمران خان کی مقبولیت کے سامنے تمام وطنی سیاسی جماعتیں اگرچہ بے بس اور بے وقعت نظر آ رہی ہیں، اسٹیبلشمنٹ ( جو موجودہ حالات کی اکلوتی ذمہ دار) کی حمایت میں نہ صرف کمر بستہ بلکہ انصافی سوشل میڈیا طوفان اور عدالتی گٹھ جوڑ کا بھر پور مقابلہ کر رہی ہیں۔ جس موڑ پرہیں وطنی سیاست کو رائج دھوکہ، جھوٹ، منافقت، فریب، منافرت سے آزاد کروانا بظاہرناممکن ، ناممکنات کو ممکنات کے قریب لانے کیلئے وقت درکار ہے ۔جبکہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس وقت کی قلت ہے۔ الیکشن اکتوبر میں ہوں یا نومبر میں ، سر پر ہیں۔ گوعمران خان کو اپنی موجودگی میں فوری انتخابات کی شدید طلب ہے۔ پچھلے ایک سال سے ہر جائز وناجائز حربہ استعمال کر چکے، ناکامی نصیب بنی۔بالآخر ساری اُمیدیں سپریم کورٹ سے بندھ چکی ہیں۔ کچھ ججز کے بچوں اور فیملیز کا عمران خان کیلئے دلجمعی سے رات دن ایک کرنا ہر گزغیر قانونی یا غیر اخلاقی نہیں۔ حفیظ اللہ نیازی کے مطابق “عمران خان ساری مقبولیت کے باوجود بند گلی میں، دور دور تک انتخابات سے محروم نظر آتے ہیں۔ اگرچہ سپریم کورٹ بظاہر کوئی درمیانی راستہ نکالنے پر آمادہ نظر آ رہی ہے، بہت دیر کی مہرباں آتے آتے واردات ہو چکی ہے۔عمران خان اور عدالتی نظام بہت پہلے سے مملکت کو اندھے کنوئیں میں کامیابی سے دھکیل چکے ہیں، اے وطن تیرے بھاگ”۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں