سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر عملدرآمد روک دیا

اسلام آباد(پی این آئی)مقننہ اور عدلیہ آمنے سامنے، پارلیمنٹ کے منظور کردہ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ‘ پر عمل درآمد سپریم کورٹ نے تا حکم ثانی روک دیا۔ سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی جس کے بعد حکم نامہ جاری کیا گیا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی آج کی سماعت کا حکم نامہ 8 صفحات پر مشتمل ہے جسے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے۔ حکم نامے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف 3 درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کی گئیں، ایکٹ بادی النظر میں عدلیہ کی آزادی اور اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، اس دوران عبوری حکم نامہ جاری کرنا ضروری ہے۔ حکم نامے کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت 2 مئی کو ہو گی، حکم امتناعی کا اجرا نا قابل تلافی خطرے سے بچنے کیلئے ضروری ہے، صدر مملکت ایکٹ پر دستخط کریں یا نہ کریں، دونوں صورتوں میں یہ تا حکم ثانی نافذ العمل نہیں ہو گا۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عدالت عدلیہ اور خصوصی طور پر سپریم کورٹ کی ادارہ جاتی آزادی کیلئے متفکر ہے، اس ضمن میں مفاد عامہ اور بنیادی انسانی حقوق کیلئے عدالت کی مداخلت درکار ہے، سیاسی جماعتیں چاہیں تو اپنے وکلاء کے ذریعے فریق بن سکتی ہیں۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ جس کے پاس قانون ریگولیٹ کرنے کی طاقت ہو وہ اس کو تباہ کرنے کی بھی طاقت رکھتا ہے، موجودہ کیس میں عدلیہ کی آزادی کی تباہی کا خدشہ ہے، کیا مقننہ کے پاس سپریم کورٹ کے قوانین میں ردوبدل کا اختیار ہے؟ واضح ہونا ضروری ہے کہ پارلیمنٹ آرٹیکل 191 میں اختیارات میں ردوبدل کا اختیار رکھتی ہے یا نہیں، عدالت کی پریکٹس اور پروسیجر میں ردوبدل خواہ کتنی ہی ضروری ہو عدلیہ کی آزادی کو متاثر کرتی ہے، مجوزہ بل یا ایکٹ کو آئین کے مطابق ہونا چاہیے۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عام حالات میں سپریم کورٹ صرف فیصلوں یا ایکشن پر حکم امتناعی جاری کرتی ہے، عام طورپرقانون پر حکم امتناعی نہیں دیا جاتا، موجودہ کیس کے حقائق اور اثرات معمولی نہیں ہیں، بادی النظرمیں ایکٹ سپریم کورٹ کے اختیارات میں براہ راست مداخلت ہے، عدلیہ کی آزادی میں براہ راست مداخلت کی اجازت نہیں دی جا سکتی، احتیاط کے طور پر عدالت کو حکم جاری کرنے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کا اپنے حکم نامے میں کہنا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ رولز میں ترمیم سے اپیل کا حق بھی دے رہی ہے، دیکھنا ہو گا کیا پارلیمنٹ عدالت کی ایپلیٹ دائرہ اختیاری میں ترمیم کر سکتی ہے یا نہیں، فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ کی انٹری 55 سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیتی ہے، پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ میں اپیل کے دائرہ اختیار کو بڑھانے کا اختیار حاصل نہیں ہے، پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اپیلیٹ دائرہ اختیار کو تبھی بڑھا سکتی ہے جب آئین اجازت دے، آئین پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے اپیلیٹ دائرہ اختیار کو بڑھانے کی اجازت نہیں دیتا۔

تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ درخواست گزار کے وکیل نے اہم قانونی نکات اٹھائے، عدلیہ کی آزادی سے متعلق بھی نکتہ اٹھایا گیا، سپریم کورٹ بل کی آئینی حیثیت کا جائزہ لے گی، تحریک انصاف، ق لیگ اور حکومتی اتحادی جماعتوں کو نوٹس جاری کردیے گئے ہیں ، اس کے علاوہ اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار اور دیگر فریقین کو بھی نوٹس جاری کردیے گئے ہیں اور کیس کی مزید سماعت 2 مئی کو ہوگی۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں