مائنس ون چلے گا نہیں، سینئر تجزیہ کار ارشاد محمود کا کالم

چرچا ہے کہ مائنس ون فارمولے پر تیزی سے کام ہورہا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو منظر سے ہٹانا کے لیے متعدد مقدمات عدالتوں میں زیر کار ہیں جو انہیں کم ازکم الیکشن کے کھیل سے باہر کرسکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن ان کے خلاف پہلے ہی خار کھائے بیٹھاہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جاری مقدمہ کی تلوار سر پرلٹک رہی ہے۔ عمروعیار کی زنبیل میں اور بھی بہت کچھ ہے یہ تو محض مشتے نمونہ ازخروارے ہے۔

ماضی کے تجربات شاہد ہیں کہ مقبول سیاسی لیڈرشپ کو راستے کے ہٹانے کی ہر کوشش کا ناقابل تلافی خمیازہ ملک کو بھگتنا پڑا۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے الیکشن میں فتح کا جھنڈا لہرایا تو اقتدار ان کے سپرد کرنے میں لیت ولعل کام لیا گیا۔چنانچہ ملک دولخت ہوگیا۔اپنے عہد کے سب سے مقبول لیڈر ذوالفقارعلی بھٹو کو سولی پر لٹکادیا گیا۔ عوام نے عدالتی فیصلہ قبول نہیں کیا۔ حتیٰ کہ وہ لوگ جنہوں نے بھٹو کی پھانسی پر لڈو بانٹے تھے انھوں نے بھی اپنی غلطی کااعتراف کیا اورعمر بھر کف افسوس ملتے رہے کہ وہ ضیاء الحق کے ساتھ شریک جرم تھے۔

نواز شریف کو ایوان اقتدار سے تین بار مختلف حیلے بہانوں سے نکالا گیا۔ بے نظیر کو دو بار سازشی صدور کے ذریعے مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔حتیٰ کہ ان پر پاکستان کی سرزمین تنگ کردی گئی۔وہ کئی برس تک وہ برطانیہ اور دوبئی میں جلاوطن رہی ہیں۔ وطن لوٹی اورسیاسی سرگرمیاں شروع کیں۔ شہرت اور مقبولیت کے عروج پر تھیں کہ انہیں ایک تابوت میں بند کرکے لاڑکانہ روانہ کردیاگیا۔ پورا ملک دکھ اور رنج سے نڈھال ہوگیا۔

شیخ مجیب الرحمن کی صاحبزادی آج بھی بنگلہ دیش کی وزیراعظم ہے۔ پیپلزپارٹی نہ صرف سندھ میں حکمران ہے بلکہ اب وفاق میں بھی شریک اقتدار ہے۔ نون لیگ کے خاتمے کے لیے پرویز مشرف نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ لیکن نون لیگ اور نوازشریف پنجاب کی ایک بڑی سیاسی حقیقت ہیں۔پس ثابت یہ ہوا کہ سیاسی حقیقتیں ریاستی مشینری کے ذریعے دبائی جاسکتی ہیں مٹائی نہیں۔ غلطی کا کفارہ یہ ہے کہ اسے دہرایا نہ جائے لیکن تاریخ کا سبق یہ ہے کہ طاقت ور طبقات غلطیوں سے سیکھتے نہیں انہیں دہراتے ہیں۔ سادہ لوحی کا عالم یہ ہے کہ مختلف نتائج کی توقع کرتے ہیں۔

جن دنوں روایتی پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا کا سورج غروب ہورہاتھا اور سوشل میڈیا کا سورج ابھر رہاتھا۔ عمران خان کی سیاست نے لوگوں کے دلوں میں گھر کرنا شروع کیا۔عاشقان اخبار اور ٹی وی کوموبائل فون اور سوشل میڈیا نے اپنے سحر میں مبتلا ہوچکے تھے۔سوشل میڈیاکے تجربے نے محض نوجوانوں کو ہی مسحور نہیں کیا بلکہ معمر افرادکو بھی اپنی طرف کھینچا۔ تحریک انصاف کے ہزاروں رضاکاروں نے پارٹی بیانیہ کو عام فہم انداز میں عوام تک پہنچانے کے لیے ان جدید ٹولز کا بھرپور استعمال کیا۔ عمران خان کے جلسے ٹیلی وژن چینلز دکھائیں یا نہ دکھائیں فرق کوئی نہیں پڑتا کیونکہ عمران خان کو سننے والے فیس بک، ٹویٹر سپیس اور درجنوں دیگر پلیٹ فارمز سے مسلسل جڑے رہتے ہیں جنہیں روکنا انتظامیہ کے بس سے باہر ہے۔

پی ٹی آئی درحقیقت کو ئی مضبوط سیاسی جماعت نہیں بلکہ ابھی تک ایک تحریک ہے۔یہ اوّل و آخر عمران خان کے اردگرد گھومتی ہے۔ پی ٹی آئی کے حامیوں میں نوے فی صد سے بھی اوپر لوگ صرف اور صرف عمران خان کو پسند کرتے ہیں۔ ان کی تقریروں اور انٹرویوز سے متاثر ہوتے ہیں۔ اسی کی بنیاد پر سیاسی بیانیہ پھیلاتے ہیں۔ پارٹی کے اندر موجود الیکٹ ابیبلز بھی عمران خان کی حمایت کے محتاج ہیں۔ کیونکہ ہر حلقے میں عمران خان کے حامیوں کا ووٹ کافی بڑی تعداد میں پایاجاتاہے۔ وہ ووٹ عمران خان کے نامزد امیدوار کو پڑتاہے تو جیت کا خواب حقیقت کا روپ دھار لیتاہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان نااہل کردیئے جاتے ہیں تو پھر کیا سیاسی منظرنامہ ہوگا؟ پی ٹی آئی کے اندر انہی کا سکہ چلتا رہے گا۔ الیکشن ان کے نام پر لڑا جائے گا۔ عمران خان کے حامی ووٹ بھی اسی جوگی کے حق میں ڈالیں گے جو عمران خان کے نام کی ملاجھپے گا ۔عمران خان جیل چلاگیا تو پی ٹی آئی زیادہ مضبوط اور متحرک ہوجائے گی۔ رائے عامہ کی ہمدردیاں سیمٹنا اور آسان ہوجائے گا۔ جلسے پہلے سے بڑے اور موثر ہوجائیں گے۔

پاکستانیوں کو بہادر، بے خوف لیڈر اور جوشیلے لیڈر پسند ہیں۔ بھٹو کی سیاست ہو یا نوازشریف کا عروج ۔ ان کی مقبولیت اور عوامی پذیرائی کاراستہ بھی مسلسل مزاحمت نے ہموار کیا تھا۔عمران خان بھی بہادر ہے اور شعلہ بیان بھی۔ اپنے نقطہ نظر کی اس قدر تکرار کرتے ہیں کہ اس کے حامیوں کو ایک ایک نکتہ ازبر ہوجاتا ہے۔ گفتگو میں وہ ملکی نظام کی جن کمزوریوں کو آشکار کرتے ہیں وہ زبان زدعام ہیں۔خان محض عوامی جذبات کو زبان دیتاہے۔ مغربی میڈیا اور انسانی حقوق کے ادارے عمران خان کی مدد کو آئیں گے اگر انہیں سیاست سے باہر کیاگیا۔

پاکستان کے اندر بھی ایک بہت بڑا طبقہ ہے جس کی مقتدر حلقوں کے ساتھ آنکھ مچول چلتی رہتی ہے وہ بھی عمران خان کی پشت پر کھڑاہوجائے گا۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی بھاری اکثریت بھی ناراض ہوگی۔ انہیں حکومت مخالف سرگرمیوں میں شریک ہونے سے کوئی روک نہ سکا گا۔ پاکستان کی جگ ہنسائی کا اہتمام خود پاکستان کریں گے۔

جہاں تک توشہ خانہ اورفارن فنڈنگ جیسے مقدمات کا تعلق ہے اگر نیب قوانین میں تبدیل کرکے اربوں کھربوں کی کرپشن کے مقدمات داخل دفتر کردیئے گئے ہیں تو ان مقدمات کو بھی بھول جانا چاہیے۔عدالتوں کے ذریعے سیاست دانوں کو سزا دلانے کے بجائے انہیں سیاست کے میدان میں شکست دی جائے تو وہ زیادہ دیر پا ہوگی۔

عمران خان اور پی ڈی ایم کو سیاسی میدان میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے دیا جائے۔ کسی ایک گروہ کی پیٹھ ٹھونکی جائے اور نہ کسی کو زبردستی کھیل سے باہر کیا جائے۔سیاسی کھیل کا لطف ہی اس وقت آتاہے جب بہت سارے لوگ مختلف نظریات اور منشور کے ساتھ میدان میں اترائیں۔ موجودہ سیاسی حالات میں مائنس ون فارمولہ سوائے گناہ بے لذت کے اور کچھ نہیں۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں