کراچی(پی این آئی)کراچی میں قائم نسلہ ٹاور کو عدالتی حکم پر منہدم کرنے کے لیے ضلعی انتظامیہ نے چار کمپنیوں کے انٹرویو کے بعد اماراتی کمپنی سے منسلک ڈیمولیشن کمپنی کو عمارت گرانے کا ٹھیکہ دینے کا عندیہ دیا ہے۔ اس کمپنی کو پہلے بھی کنٹرول بلاسٹنگ سے عمارات منہدم کرنے کا تجربہ حاصل ہے، جبکہ عمارت گرانے کا تمام تر خرچ اس کا ملبہ بیچ کر ہی پورا ہو جائے گا بلکہ منافع کا بھی امکان ہے۔
کراچی کے ضلع شرقی کی اسسٹنٹ کمشنر اسما بتول کے مطابق ڈپٹی کمشنر شرقی آصف جان صدیقی کی صدارت میں آٹھ رکنی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں چار کمپنیوں کی جانب سے نسلہ ٹاور کو منہدم کرنے کے لیے اظہارِ دلچسپی کی درخواستوں پر غور کیا گیا۔چار میں سے دو کمپنیوں، میر انٹرپرائزز اور اے این آئی انٹرپرائزز نے انسانی مدد سے مکینیکل طریقے سے عمارت کو گرانے کی تجویز پیش کی، جس کے لیے دو سے تین ماہ کا عرصہ درکار ہو گا۔ جبکہ دیگر دو کمپنیوں، تابانی جو کہ چائنیز کمپنی سے منسلک ہے اور ہائی ٹیک ڈیمولیشن جو اماراتی کمپنی سے منسلک ہے، ان دونوں نے اپنی غیر ملکی منسلک کمپنیوں کی مہارت ہے بل بوتے پر عمارت کو کنٹرول بلاسٹنگ سے گرانے کی پیشکش کی۔
اسما بتول نے بتایا کہ کمپنی کو ٹھیکہ دینے کا حتمی فیصلہ تو کمشنر کراچی کی جانب سے کیا جائے گا، البتہ کمیٹی اجلاس میں اس بات پر رضامندی ظاہر کی گئی کہ عمارت کو کنٹرول بلاسٹنگ سے گرایا جائے، کیوں کہ دونوں طریقوں میں وقت تو تقریباً ایک جتنا ہی لگے گا، یعنی تین مہینے، البتہ انسانی مدد اور چھوٹی مشینوں سے عمارت کو توڑنے میں کئی دنوں تک ملحقہ سڑکوں کو بند رکھنے اور متبادل ٹریفک پلان بنانے کی جھنجھٹ رہے گی۔واضح رہے کہ کنٹرول بلاسٹنگ کے حوالے سے مذکورہ کمپنی نے بتایا ہے کہ پہلے مرحلے میں تقریباً ایک مہینے میں عمارت کی فیزیبیلٹی سٹڈی کی جائے گی اور مختلف پہلوؤں کے حوالے سے معلومات اور تخمینہ لگائے جائیں گے جس کے بعد کنٹرول بلاسٹنگ کی جائے گی۔مزید برآں منہدم عمارت کا ملبہ اٹھانے میں 2 ماہ تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔اس پورے عمل میں ڈپٹی کمشنر کا دفتر بلڈنگ پلان اور یوٹیلیٹی سروس کی فراہمی کے نقشے کمپنی کو فراہم کرے گا۔ ڈپٹی کمشنر کی جانب سے بتایا گیا کہ انسانی جانوں اور ملحقہ املاک کی حفاظت ان کی اولین ترجیح ہے۔
ڈیمولیشن کی لاگت کے حوالے سے اسسٹنٹ کمشنر اسما بتول کا کہنا تھا کہ مزکورہ عمارت کا ملبہ ڈیمولیشن کمپنی کی ملکیت ہو گا اور وہ اسے بیچ کر ہی اپنا خرچ بلکہ منافع تک پورا کر لیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالتی احکامات کی رو سے عمارت کو منہدم کیے جانے کا خرچ بلڈر نے ادا کرنا ہے، ایسا نہ کرنے کی صورت میں مذکورہ پلاٹ کو نیلام کر کے ادائیگیاں کرنے کا حکم ہے، لیکن یہ ایک خاصا طویل معاملہ ہو سکتا ہے۔گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے غیر قانونی طور پر تعمیر کردہ نسلہ ٹاور کو فی الفور دھماکے سے اڑانے کا حکم دیا تھا۔ عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے پر برہمی دکھاتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نسلہ ٹاور کو ایک ہفتے میں منہدم کیا جائے۔ البتہ شہری انتظامیہ نے اس حوالے سے واضح کیا کہ کسی حکومتی ادارے کے پاس ایسی صلاحیت موجود نہیں جس کے بعد پرائیویٹ کمپنیوں سے اظہارِ دلچسپی نوٹس منگوائے گئے تھے۔
تعمیراتی ماہر محمد توحید نے اس حوالے سے بتایا تھا کہ پاکستان میں کسی کمپنی کے پاس یہ صلاحیت اور تجربہ موجود نہیں، البتہ اگر کوئی پاکستانی کمپنی کسی بین الاقوامی کمپنی کے ساتھ پارٹنرشپ میں یہ کام کرلے تو ٹھیکہ اسے مل سکتا۔ کیوں کہ اگر ڈائریکٹ بین القوامی کمپنی کے لیئے انٹرنیشنل بڈِنگ کی گئی تو اس معاملے میں 6 ماہ کر عرصہ لگ سکتا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں