عالمی برادری کاطالبان کیخلاف نامناسب رویہ، امریکی سینیٹ میں طالبان کی مدد پر پاکستان کے خلاف پابندیوں کا بِل پیش کر دیا گیا

اسلام آباد(پی این آئی)سابق وزیرداخلہ اورچیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈریفارمز (آئی آر آر)سینیٹررحمان ملک نےکہاہےکہ ان کےاور ہر پاکستانی کے لیے باعث تشویش ہےکہ سابق امریکی صدارتی امیدوار سمیت امریکی سینیٹرز کے ایک گروہ نےامریکی سینیٹ میں طالبان کی مدد پر پاکستان کے خلاف پابندیوں کا بِل پیش کیا گیا ہے.

افسوس کی بات ہےکہ یہ بل پاکستان کےنام کو اس سیکشن میں شامل کرتا ہے جس میں “طالبان کو معاونت فراہم کرنے والے اداروں” کے بارے میں رپورٹ طلب کی گئی ہے،پاکستان پہلے دن سے امریکہ کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مکمل حمایت اور معاونت کر رہا ہے ،جس میں اس کی قربانیاں دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہیں، اس جنگ میں پاکستان نے اسی ہزار سے زائد سویلین اور فوجیوں کی جانوں کی قربانی اور معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا گیا ہے۔رحمان ملک نےسوال اٹھایا کہ پاکستان کےکردار کی تحقیقات کےبجائے،افغانستان سےامریکی افواج کےجلدبازی میں انخلاء کی تحقیقات ہونی چاہیے، پاکستان نے امریکہ کو افغانستان پر حملہ کرنے کی دعوت نہیں دی تھی بلکہ یہ امریکہ کا یکطرفہ فیصلہ تھا کہ وہ افغانستان پر حملہ کرے، وہ پاکستان کے اس وقت کے وزیر داخلہ کے طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے پاکستان کے نقصانات اور مشکلات کو اچھی طرح جانتے ہیں، پاکستانی عوام امریکی سینیٹرز کے اس اقدام پر دُکھی ہے، پاکستان کو اس کی قربانیوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار کے لیے سراہاجانا چاہئے،اگر طالبان امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدوں کی شرائط پوری نہیں کر رہے تو پاکستان کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں کیونکہ یہ معاہدہ امریکہ کا فیصلہ تھا۔انہوں نے امریکی سینیٹرز سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان پر پابندیاں لگانے کے لیے پیش کردہ بل پر نظر ثانی کریں اور واپس لیں،یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ طالبان کی نئی افغان حکومت کو اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس سے کوئی ریلیف نہیں ملا اور نہ ہی کسی ملک نے اس کی باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کی حمایت کی، دنیا افغان طالبان کے خلاف غیر سنجیدہ رویہ اختیار کر رہی ہے اور انہیں اپنا راستہ جاری رکھنے کی طرف دھکیل رہی ہے جوکہ ایک خطرناک راستہ ہے جہاں انسانی خون اور حقوق کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ افغان عوام کی بدقسمتی ہے جو گزشتہ تیس سالوں سے مصائب کا شکار ہیں جس کی بنیادی وجہ غیر ملکی مداخلت اور اندرونی پولرائزیشن ہے، افغان عوام پرامید تھی کہ امریکی فوجیوں کے انخلا سے ان کے اور ان کے جنگ زدہ ملک میں امن ، استحکام ، خوشحالی اور ہم آہنگی آئے گی لیکن امن اب بھی ان کے لیے ایک خواب ہے،افغان معاشرے میں آج بھی وہی خوف دیکھا جاسکتا ہے جو وہ کبھی امریکی فوجیوں سے محسوس کر رہے تھے اور آج وہ اپنے باشندے افغان طالبان سے خوفزدہ ہیں۔انھوں نے کہا کہ افغان طالبان کے اچانک افغانستان پر قبضے نے امریکہ کو مشتعل کر دیا ہے جو افغان قوم کے لیے مزید مشکلات کا سبب بنتا جا رہا ہے،جنرل اسمبلی کے دوران ابھرتا ہوا ردعمل تقریبا وہی رجحان ہے جو امریکہ نے نائن الیون کے بعد طالبان کے خلاف قائم کیا تھا اور اسوقت کسی بھی ملک نے ہمت نہیں کی کہ پہلے تحقیقات کا مطالبہ کرتے اور پھر رد عمل ظاہر کرتے نتیجتاً مسلم دنیا کیخلاف نفرت اگلتا رہا اور دنیا کا چہرہ بدل دیا گیا۔ سینیٹر رحمان ملک نے امید ظاہر کی کہ دنیا سنجیدگی سے طالبان کو امن کی طرف گامزن کرے گی نہ کہ ایک اور خونی تنازع کی طرف، اگر بروقت سنجیدہ اقدامات نہ لئے گئے تو طالبان کو پراکسی جنگوں کے لیے استعمال کیا جائے گا اور افغانستان دھشتگردوں کا گڑھ بن جائیگا جو نہ صرف اس خطے بلکہ پورے دنیا کے امن کے لئے خطرناک ثابت ہوگا،جنرل اسمبلی میں امریکی صدر بائیڈن نے “افغانستان میں 20 سال سے جاری تنازع کے خاتمے” اور “مسلسل سفارت کاری کے نئے دور کا آغاز کرنے” کی بات کی مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اقوام متحدہ طالبان کو باضابطہ طور پر حکومت تسلیم کرنا چاہیے کہ نہیں؟امریکی وزیر خارجہ مسٹر اینٹونی جے بلنکن نے افغان حکومت پر مزید پابندیوں کا عندیہ دیا ہے جس کا مطلب ہے کہ افغان حکومت کو بین الاقوامی حمایت کے امکانات کم ہیں۔انہوں نے کہا کہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ روس ، چین ، پاکستان اور امریکہ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ طالبان اپنے وعدوں کو پورا کریں اور انتہا پسندی کو پھیلنے سے روکیں جبکہ چین کے صدر نے افغان حکومت کو تسلیم کرنے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا سوائے اس کے کہ انہوں نے کہا کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہے۔سینیٹر رحمان ملک نے مزید کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے پر زور دیا تاہم بھارتی وزیراعظم مودی نے طالبان کے خلاف بات کی اور پاکستان کو بالواسطہ نشانہ بھی بنایا، سب سے طاقتور سربراہان مملکت کی تقریروں کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ بات قابل غور ہے کہ ان میں سے کسی نے ابھی تک طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا عندیہ نہیں دیا،روس ، جرمنی ، چین اور امریکہ سمیت کئی نے پیشگی شرط کا اشارہ دیا ہے کہ طالبان کو ایک جامع حکومت کے اپنے وعدوں کی پاسداری کرنی ہوگی۔ رحمان ملک نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ بین الاقوامی سطح پر طالبان کو کوئی ریلیف دینے کا کوئی ارادہ ہے کیونکہ امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ وہ افغان طالبان پر مزید پابندیاں لگانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ افغان طالبان کے اثاثے غیر منجمد نہیں کریں گے،افغان طالبان کےپاس نہ تو مالی قابلیت ہےاورنہ ہی ان کے پاس ذخائر ہیں اور دستیاب وسائل دن بدن ختم ہو رہے ہیں اور عام آدمی میں بے چینی بڑھ رہی ہے،افغان حکومت زیادہ تر قطر کی طرف سے امداد پر انحصار کر رہےہیں لیکن یہ کسی ایک ملک کا کام نہیں ہے،بین الاقوامی دنیا کو عام افغانی کے مسائل میں دیکھنا ضروری ہے اور انسانی حقوق کی بنیادوں پر امداد پہنچانا وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا کو اب افغانستان کو بین الاقوامی دھارے میں شامل کرنے کی ضرورت ہے اور طالبان کو انسانی حقوق کی پاسداری کا پابند رکھنے کی۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں