امریکا اپنی حد میں رہے، ہمارے معاملات میں مداخلت نہ کرے، چین نے عالمی سپرپاور ملک کو وارننگ دیدی

لاہور (پی این آئی) ہانگ کانگ جب سے چین کے نقشے میں شامل ہوا ہے تب سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے مگر اس کی ترقی اور چین کے معاملات کے حوالے سے سب سے زیادہ تکلیف جاپان کو ہے۔لہٰذا وہ کبھی کہتا کہ ہانگ کانگ میں چین کا ڈنکا اتنے زور کا نہیں بجنا چاہیے اور کبھی کہتا ہے کہ چین تائیوان میں بھی آ

جائے گا اسے ڈر ہے۔لہٰذا وہ حیلے بہانے سے اس معاملے میں امریکا بہادر کو بلانے کی کوششوں میں لگا رہتا ہے۔لہٰذ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ جاپان کے ہی بار بار مطالبہ کرنے پر امریکہ نے چین کے خلاف بیان دیا ہے مگر اس کا یہ بیان سراسر زیادتی ہے اورزمینی حقائق کے خلاف ہے۔اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے چینی انتظامیہ نے بھی بھرپور احتجاج کیا ہے۔چین کی وزارت خارجہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تبت پر دستخط شدہ قانون کو یکسر مسترد کردیا اور ہانگ کانگ سے متعلق معاملات میں مداخلت سے باز رہنے پر زور دیا۔خبر ایجنسی ‘رائٹرز’ کی رپورٹ کے مطابق چینی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز تبت سے متعلق جس قانون پر دستخط کیے ہیں اس کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ترجمان وزارت خارجہ ڑاو¿ لیجیان نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ تبت سے متعلق امور ہمارے داخلی معاملات ہیں۔اس سے قبل امریکا کے صدر نے تبت سے متعلق پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے تبتن پالیسی اینڈ سپورٹ ایکٹ 2020 پر دستخط کیے تھے۔اس قانون میں کہا گیا ہے کہ لہاسا میں امریکی قونصل خانہ قائم کیا جائے گا اور تبت کے شہریوں کو دلائی لاما کا جانشین منتخب کرنے کا مکمل حق دیا جائے گا۔چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بریفنگ کے دوران امریکا پر ہانگ کانگ کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے پر زور دیا۔ان کا کہنا

تھا کہ امریکا، ہانگ کانگ کو استعمال کرتے ہوئے ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔چین کی جانب سے یہ بیان چین میں قائم امریکی سفارت خانے کے اس مطالبے کے بعد سامنے آیا کہ شیژن میں ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے قید 12 افراد کو رہا کیا جائے۔امریکی سفارت خانے کے ترجمان نے بیان میں کہا تھا کہ ان افراد کا ‘نام نہاد جرم، ظلم سے بغاوت اور چین کا اپنے شہریوں کو کہیں بھی آزادانہ طور پر کام کرنے سے روکنے کا عزم ہے’۔چینی ترجمان نے کہا کہ ‘امریکا کا بیان حقائق کے منافی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ چین اس بیان سے مکمل اختلاف کرتا ہے اور امریکا پر زور دیتا ہے کہ چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہے۔یاد رہے کہ 1991 میں برطانیہ نے ہانگ کانگ کو چین کے حوالے کیا تھا اور چین یہاں ‘ایک ملک، دو نظام’ فریم ورک کے تحت حکمرانی کر رہا ہے اور ہانگ کانگ کو نیم خود مختاری حاصل ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں