لاہور (پی این آئی) سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ جب عمران خان حکومت میں آئے تو کئی لوگوں نے بڑی بڑی امیدیں وابستہ کی ہوئی تھیں۔عمران خان کے آنے سے پہلے ریاستی ادارے بھی سوچ رہے تھے کہ موجودہ صورتحال میں کس طرح ملک کو آگے لے کر چلنا چاہیے ۔عمران خان کے آنے سے چند قبل پہلے یا ان کے
آتے ہی یہ پلان تھا کہ ملک میں صرف ایک ہی جماعت ہو گی جو کہ تحریک انصاف ہے۔باقی جماعتیں ڈس کریڈٹ ہو گئیں۔بنیادی طور پر تصور یہ تھا کہ ہم چائنیز ماڈل لا رہے ہیں۔جب اس کا خاکہ بنایا گیا تھا تو وہ چینی ماڈل کا بنایا گیا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ صدارتی نظام کی بھی بات چیت چلتی رہی ہیں۔صدارتی نظام میں چینی ماڈل بھی آ رہا تھا اور اسے اسلام سے بھی جوڑا جا رہا تھا۔یہ مشرف یا ضیاء والا ماڈل نہیں تھا۔ اگر امریکہ کا نظام دیکھا جائے تو وہاں پر چیک اینڈ بیلنس ہے۔ایک صدر سیکرٹری دفاع کا انتخاب کرتا ہے۔ہمارے ہاں بھی ایک تصور آیا کہ کچھ ایسا ہو کہ ملک میں زیادہ سیاسی جماعتیں نہیں ہونی چاہیئے۔عمران خان بھی یہی کہتے ہیں کہ صدارتی نظام ہونا چاہیے۔لیکن سب کچھ گڑ بڑ ہو گیا ، وہ شخصیات پارلیمنٹ میں آئیں جو پہلے دوسری جماعتوں میں تھے۔میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی ، آئی ایم ایف کا معاملہ بھی چلتا رہا۔ان حالات میں گڑ بڑ پیدا ہو گئی۔چینی ماڈل میں ان لوگوں کو رکھا گیا تھا جو عوام کے ساتھ تھے لیکن ہمارے وزراء تو عجیب باتیں کرتے رہتے ہیں۔عمران خان کے ارد گرد عجیب لوگوں کو لایا گیا ہے۔عوام نے بھی دیکھا کہ یہ تو پرانے لوگ ہیں تو نیا سسٹم کیسے آئے گا۔ واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اس وقت شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف یکجا ہونی چاہئیے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں