اسلام آباد (پی این آئی) اپوزیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیر خارجہ ایوان میں آکر افغان امن معاہدے سے متعلق پالیسی بیان دیں،افغان صدر کا بیان خوش آئندنہیں،وزیر خارجہ پریس کانفرنس کے بجائے ایوان میں آنا چاہیے تھا،افسوس کی بات ہے حکومت دونوں ایوانوں کو سنجیدہ نہیں لے رہی،افغانستان کے آئین کا تحفظ کون کرے
گا؟ حکومت کے پاس امریکی انخلاء کی تفصیلات ہونی چاہیے، اگر انخلاء کی تفصیلات نہیں ہیں تو یہ مجرمانہ غفلت ہوگیجبکہ وفاقی وزیر اعظم سواتی نے کہا ہے کہ طالبان امریکہ معاہدے کے معاملے پر حکومت اپنا نکتہ نظر ضرور دے گی،موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے سب کو داد دینی چاہیے،طالبان، امریکہ معاہدے کو شک کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے،ملک میں نیشنل پاور ایمرجنسی لگنی چاہیے۔ پیر کو سینیٹ اجلاس میں توجہ دلاؤ نوٹس بیرسٹر محمد سیف نے کہاکہ افغان امن معاہدہ انتہائی خوش آئند ہے، افغان کمانڈر نے اپنا مثبت کردار ادا کیا ہے۔سینیٹر شیری رحمن نے وزیر خارجہ کا ایوان میں اکر افغان امن معاہدہ سے متعلق پالیسی بیان دینے کا مطالبہ کردیاانہوں نے کہاکہ پاکستان نہیں سمجھتا ہے ہمسایہ ملک میں مداخلت کرے گا،پاکستان ہمسایہ ملک کو ازاد اور خود مختار سمجھتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ چھ سوال اٹھ رہے امریکہ، پاکستان اور افغانستان میں۔انہوں نے کہاکہ افغان صدر نے سوال اٹھایا کہ انھیں اس معاہدہ میں شامل نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہاکہ یہ بات واضح نہیں کی گئی کہ پانچ ہزار قیدی واپس کیسے آئینگے۔ انہوں نے کہاکہ تیزی میں جو ڈیل سائن ہوئی وہ بیشک ہمارے حق میں ہے،پر یہ بتایا جائے امریکہ سے کیا بات ہوئی۔شیری رحمن نے کہاکہ صدر زرداری نے حامد کرزئی کو پاکستان بلایا تھا، ہم نے شمسی ایئربیس بند کئے، تیزی میں ڈیل کی گئی ہے۔شیری رحمان نے کہاکہ امن ڈیل کے حوالے سے کچھ سوالات بھی اٹھ رہے ہیں،افغانستان کے اشرف غنی نے بھی سوالات اٹھائے ہیں۔شیری رحمان نے کہاکہ پانچ ہزار قیدیوں کا معاملہ بھی اٹھایا ہے، ڈیوڈ سینگر نے اس امن ڈیل پر سوالات اٹھائے ہیں، روز پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کیا جاتا تھا، کیا پاکستان نے امریکہ سے ڈو مور کا مطالبہ کیا ہے،؟۔انہوں نے کہاکہ اس امن معاہدے کا کون ضامن ہوگا؟، وزیر خارجہ نے اس معاملے پر پارلیمان اور کمیٹی میں بات نہیں کی، وزیرخارجہ آجائیں اور ہمیں اعتماد میں لیں، وزیر خارجہ کو ایوان میں موجود ہونا چاہئے تھا۔انہوں نے کہاکہ افغانستان کے آئین کا تحفظ کون کرے گا؟ حکومت کے پاس امریکی انخلاء کی تفصیلات ہونی چاہیے، اگر انخلاء کی تفصیلات نہیں ہیں تو یہ مجرمانہ غفلت ہوگی۔شیری رحمن نے کہاکہ انخلاء کی تفصیلات شیئر کی جائیں۔وفاقی وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی نے کہاکہ طالبان امریکہ معاہدے کے معاملے پر حکومت اپنا نکتہ نظر ضرور دے گی انہوں نے کہاکہ پورے خطے کی سیاست کا مستقبل کا انحصار دوحہ معاہدہ سے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے سب کو داد دینی چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ بھارت خود کو بھی افغانستان کے معاملے پر خود کو فریق سمجھتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بھارت کا مقصد صرف پاکستان کو تباہ کرنا ہے۔ انہوں نے کہاکہ افغان اپنے ملک کے اندر اور باہر ٹھوکریں کھا رہے ہیں،ہمیں اس معاہدے کو مکمل سپورٹ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ طالبان، امریکہ معاہدے کو شک کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے۔لیڈر آف اپوزیشن راجہ ظفر الحق نے کہاکہ افغان صدر کے جو بیان پڑھے وہ زیادہ خوش آئند نہیں۔انہوکں نے کہاکہ کئی بار پہلے بھی ہوا افغانستان میں لوگوں کو اکھٹا کرکے عبوری حکومت بنائی گئی،اس معاملہ پر بہت بہتر ہوگا وزیر خارجہ ایوان میں آئے تاکہ معاملہ تفصیل سے بات ہوسکے۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہاکہ وزیرخارجہ نے گزشتہ روز جو پریس کانفرنس کی انہیں وہ بیان ہاؤس میں اکر دینا چاہئے تھا۔انہوں نے کہاکہ افسوس کی بات ہے حکومت دونوں ایوانوں کو سنجیدہ نہیں لے رہی۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ اجلاس میں مشیر خزانہ سے ایوان میں اکر ائی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات کے بارے میں اگاہ کرنے کا کہا گیالیکن ٹیکنو کریٹ وزیر خزانہ ایوان میں نہیں آئے۔سینیٹر رضا ربانی نے کہاکہ وزیر خارجہ کو معلوم ہے کہ سینیٹ اجلاس چل رہا ہے،وزیر خارجہ کو امریکہ افغانستان امن معاہدے پر ایوان کو اعتماد میں لینا چاہئے۔انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت دونوں ایوانوں کو سنجیدہ نہیں لے رہی،آج کے اخبارات میں بہت تشویشناک خبر چھپی ہے۔ اخبارات کے مطابق نیپرا نے وزیراعظم کو کہا ملک میں نیشنل پاور ایمرجنسی ڈیکلیئر کردیں۔قائد ایوان سنیٹر شبلی فراز نے کہاکہ وزیر خارجہ سے رابطہ کررہے ہیں،کوشش ہے کہ اج ایوان میں آئیں، وزیرخارجہ آج نہیں تو کل ضرور ایوان میں آئیں گے۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں نیشنل پاور ایمرجنسی لگنی چاہئے۔انہوں نے کہاکہ ماضی میں جو ہمارے کنٹریکٹ ہوئے اس میں پاکستان کے مستقبل کا نہیں سوچا گیا،جب قیمتیں بڑھانا چاہئے تھی گزشتہ حکومت نے نہیں بڑھائی۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ حکومتیں اس وقت قیمتوں کو برقرار نہیں رکھتی تھیں،ہم اس وقت سیاسی قیمتیں ادا کررہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ جب ہم نے حکومت سنبھالی سرکولر ڈیتھ 1.2 ٹریلن تھا اور اب مزید بڑھ چکا ہے۔انہوں نے کہاکہ اگر ہمیں مرض کا علاج کرنا ہے تو سخت فیصلے کرنے ہونگے۔ قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق نے کہاکہ حج فارم سے ختم نبوت کا حلف نامہ ختم کر دیا گیا ہے،وفاقی مذہبی امور سے حلف نامہ کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں کس نے نکالا ہے،وفاقی وزیر کو بلایا جائے تاکہ وہ اس حوالے سے حکومت کا موقف بیان کر سکیں چیئرمین نے ہدایت کہ منگل کو متعلقہ وزیر ایوان میں آکر بیان دیں۔سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہاکہ کروناوائرس کے معاملہ میں چین میں طلبا کو اب تک ضرورت کا سامان مہیا نہیں گیا گیا،موجودہ حکومت کی ملیریا، ٹی بی اور ڈینگی پر کوئی کارکردگی نہیں۔ انہوں نے کہاکہ ڈینگی سے ہوئی اموات کے اعداد و شمار نہیں دئیے گئے،پی ٹی وی حکومت کا ادارہ ہے کسی سیاسی جماعت کا نہیں،یہاں مسلسل عدلیہ پر حملے ہو رہے ہیں، ان کی جاسوسی ہو رہی ہے،پی ٹی ایم کے سینکڑوں کارکنان پر حملہ ہو رہے ہیں، خواتین کو گرفتار کیا جا رہا ہے،موجودہ حکومت نیب کے ذریعے سیاسی انتقام لے رہی ہے، احسن اقبال نے کہا کہ میری 5-7 ہفتوں گرفتاری کے دوران سوالات نہیں پوچھے گئے۔سینیٹر پرویز رشید نے کہاکہ حکومت کی ساری سیاست نواز شریف کو جیل میں رکھنے پر گھومتی ہے،مشرف کی سیاست نوازشریف کو جلاوطن رکھنے پر ہوتی تھی۔ ان کو عوامی اشوز یاد نہیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کسی بھی ایشو پر بات کی جائیے حکومت کے پاس بس ایک ہی جواب ہے کے ماضی کی حکومت نے یوں کیا،اچھا ہوا کے وزیراعظم نے خود کو گولی نہیں ماری ورنہ قوم ماھر موسمیات اور ماہر جغرافیہ سے محروم یوجاتے،جن کو
ملک میں بارہ موسم نظر آتے ہیں اور وہ روشنی سے بھی تیز ٹرین چلانا چاہتے ہیں۔ پرویز رشید نے کہاکہ عوام یہ سننے کے لئے بیتاب ہیں کہ حکومت کب کوئی ائیر پورٹ کوئی بندرگاہ بنائیگی۔ انہوں نے کہاکہ حکومت نے باورچی خانے برباد کر کے لوگوں کو لنگر خانوں کی لائن میں کھڑا کردیا ہے۔سینیٹر میاں عتیق نے کہاکہ اب جو اجلاس چل رہا ہے اور جو باتیں اس میں زیر غور لائی گئی ہیں کوئی بھی شخص اس سے انکار نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں دیکھنا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ ملک کی معیشت خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ بلاول بھٹو نے پریس کانفرنس میں حکومت کو بھرپور تعاون کا یقین دلایا جو خوش آئند ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت ضروری چیز یہ دیکھنی ہے کہ کیا مہنگائی آئی ایم ایف کی وجہ سے ائی ہے۔ انہوں نے کہاکہ جہاں تک ائی ایم ایف کی بات ہے وہ تو ٹھیک ہے، مگر عام لوگوں کو نہیں پتا ائی ایم ایف کیا چیز ہے انہوں نے کہاکہ ہم سب غریبوں کی بات تو کرتے ہے مگر غریبوں کو جانتے نہیں اور نا ہمیں پتا ہے کہ غریبی کیا چیز ہوتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ میں دعاگوں ہو کہ اس ایوان میں غریب لوگ ائے تا کہ وہ غریبوں کا احساس کرے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں سوچنا چاہئے کہ آنے والے وقت میں چیزوں کو کیسے سستا کیا جائیگا۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ مہنگائی کیو ں ہورہی۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم صاحب کب دیکھے گے کب وہ عینک لگائیں گے جس سے پتا چلے کہ مہنگائی کیو ہورہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ دیکھنا کیا سب ہمارے ارد گرد بیٹھے ہوئے ہے، سب سامنے ہے کارروائی کرے۔ انہوں نے کہاکہ جو لوگ فیکٹریاں نہیں چلاسکتے تھے اب وہ جہاز لینے کی بات کرتے ہے،جنہوں نے غریبوں کا حق کھایا ہے انہیں کٹہرے میں لانا ہوگا۔سسی پلیجو نے کہاکہ شیخ رشید ہر دور میں کسی کے مہرے کے طور پر کام کرتے رہے ہیں، شیخ رشید تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کیا انکی وزارتی ذمہ داریاں پوری ہو گئیں، وہ صرف الزامات لگانے کی کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ انکو ایوان میں آ کر اپنی کارکردگی سے آگاہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ صوبائی فنڈز بن کریں یا اپوزیشن کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنائیں، ہم اپنے موقف پر قائم رہیں گے۔سینیٹر مشتاق احمد نے کہاکہ ختم نبوت سے متعلق وزیر نے مانا ہے کہ ان سے مشاورت کے بغیر یہ کام کیا گیا ہے، وزیر نے کہا ہے انہوں نے اس عمل پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ شرارت کرنے والوں کا تعین کیا جائے، وہ لوگ ہمارے دشمن ہیں۔ سینیٹر شیری رحمان نے کہاکہ ہم قرآن و حدیث کومانتے ہیں اور اپنے حساب سے چل رہے ہیں،اگر عورت اپنے حقوق مانگنے کے لئے گھر سے باہر نکلتی ہے تو وہ اسکا حق ہے۔ انہوں نے کہاکہ عورت اگر باہر نکل کر حق مانگے تو آوارہ اگر مرد مانگے تو ٹھیک ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم ایسا نہیں ہونے دینگے, ہم اس چیز کی مذمت کرتے ہیں،عورت مارچ 8 تاریخ کو ہو کر رہیگا۔وزیر برائے توانائی عمر ایوب خان نے پالیسی بیان دیتے ہوئے کہاکہ ہم نے آئل کی قیمتیں کم کیں تو تو بھی شور مچ رہا ہے،عورت آٹا گوندھنے ہلتی کیوں ہے کی مثال اس پر لگتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ماضی کی حکومتوں نے
گردشی قرضہ بڑھایا،سابقہ حکومت کے کچھ ذمے دار کہتے تھے کہ ایسا نہ ہو ہماری حکومت دوبارہ آجائے۔ انہوں نے کہاکہ ان ذمہ داروں کو معلوم تھا کہ وہ ملک میں کیا کرکے جارہے ہیں،جو ایل این جی معاہدہ کیا گیا اس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔عمر ایوب خان نے کہاکہ سابق حکمران باردی سرنگیں لگا کر نقشے بھی ساتھ لے گئے ہیں،سندھ بلوچستان کے پی میں سستے توانائی کے منصوبے لگانے جارہے ہیں،ہم تھر کول ایٹمی پلانٹس سے سستی توانائی لگائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ اسی فیصد اپنے وسائل سے منصوبے لگائینگے۔ عمر ایوب نے کہاکہ ہم نے گردشی قرضہ 39 ارب ماہانہ سے کم کرکے 14 ارب ماہانہ کیا،ہماری حکومت نے انرجی سیکٹر میں 120 ارب روپے ماہانہ ریکوریز کیں۔ انہوں نے کہاکہ نیپرا نے فی یونٹ ساڑھے چار روپے کی سمری دی جسے وزیراعظم نے مسترد کرکے ایک روپے 27 پیسہ بڑھایا،اپوزیشن حکومت کی کارکردگی سے خوفزدہ ہے۔وفاقی وزیر رہونیو حماد اظہر نے کہاکہ مہنگائی کی شرخ 14.6 سے کم ہوکر 12.4 فیصد ہوگئی،تیل اور ڈیزل میں 5 روپے کمی کے بعد مہنگائی میں کمی ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ برس فروری کے برعکس رواں سال فروری میں برآمدات میں 13.6 فیصد اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہاکہ فیٹف کی 27 میں سے 14 سفارشات پر مکمل طور پر عملدرآمد ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہاکہ فیٹف کی 13 میں سے 11 سفارشات میں کافی حد تک عملدرآمد ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہاکہ جب اقتدار سنبھالا تو پاکستان کے پاس صرف دو ہفتے کے ریزرو رہ باقی گئے تھے۔ انہوں نے کہاکہ پچھلے سال 32 فیصد خسارہ کم ہوا جبکہ رواں برس 70 فیصد کم ہوا۔ انہوں نے کہاکہ ابتک پاکستان کے ریزرو میں 50 فیصد اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہاکہ روپے کی قدر کو مستحکم کرنے کے لیے ایک ڈالر بھی مارکیٹ میں نہیں جھونکا گیا۔ بعد ازاں سینیٹ کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا گیا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں