فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان بالآخر ایک تاریخی امن معاہدہ طے پا گیا، جس میں مستقل جنگ بندی، قیدیوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ، غزہ کی تعمیر نو اور امدادی سامان کی فراہمی جیسے اہم نکات شامل ہیں۔
اس معاہدے کا اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر کرتے ہوئے کیا اور اسے “امن کے طویل اور پائیدار سفر کی پہلی بڑی کامیابی” قرار دیا۔ ٹرمپ نے بتایا کہ معاہدے کے تحت یرغمالیوں کی جلد رہائی اور دونوں فریقوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کو یقینی بنایا جائے گا۔ دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے معاہدے کو اپنی “سیاسی، اخلاقی اور قومی فتح” قرار دیتے ہوئے امریکی صدر کا شکریہ ادا کیا۔
تاہم حماس نے ضامن قوتوں—امریکا، ترکیہ، مصر اور قطر—سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو معاہدے کی تمام شقوں پر عمل درآمد کا پابند بنایا جائے، تاکہ کسی نئی کشیدگی سے بچا جا سکے۔ امریکی میڈیا کے مطابق قیدیوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ ہفتہ یا اتوار سے شروع ہونے کا امکان ہے، جبکہ صدر ٹرمپ نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی ممکنہ طور پر پیر کو ہوگی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کا تبادلہ باعزت طریقے سے ہونا چاہیے اور غزہ میں فوری انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
یہ معاہدہ گزشتہ روز مصر کے شہر شرم الشیخ میں مصر، ترکیہ، امریکا اور قطر کی سرپرستی میں طے پایا — مگر سوال اب یہ ہے کہ کیا برسوں کی دشمنی کے بعد یہ امن واقعی دیرپا ثابت ہوگا؟
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں