صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کے درمیان جمعہ کے روز ایک اہم مگر تلخ گفتگو ہوئی، جس میں غزہ جنگ کے ممکنہ خاتمے سے متعلق دونوں رہنماؤں کے درمیان واضح اختلافات سامنے آئے۔ امریکی ویب سائٹ Axios کی رپورٹ کے مطابق، یہ بات چیت اس وقت ہوئی جب حماس نے ٹرمپ کے پیش کردہ امن منصوبے پر جزوی رضامندی ظاہر کی، جسے صدر ٹرمپ نے مثبت پیش رفت قرار دیا اور فوری طور پر نیتن یاہو کو فون کر کے خوشی کا اظہار کیا۔
تاہم نیتن یاہو نے ٹرمپ کے جذبات میں شریک ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ حماس کا جواب کوئی خوشی منانے کی بات نہیں، اور اس کا مطلب کچھ خاص نہیں ہے۔ اس پر ٹرمپ نے سخت لہجے میں جواب دیا کہ “مجھے سمجھ نہیں آتی تم ہمیشہ اتنے منفی کیوں رہتے ہو۔ یہ جیت ہے، اسے ایسے ہی لو۔” امریکی اہلکاروں کے مطابق، اس مکالمے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹرمپ حماس کی پیشکش کو ایک عملی موقع سمجھ رہے تھے اور چاہتے تھے کہ اسرائیل بھی اس پہلو کو سنجیدگی سے لے۔
حماس کی جانب سے پیش کیے گئے جواب میں کہا گیا تھا کہ وہ باقی تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے پر آمادہ ہے، بشرطیکہ جنگ بند ہو جائے اور اسرائیلی افواج مکمل طور پر غزہ سے انخلا کر لیں۔ ساتھ ہی گروپ نے مذاکرات جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔
نیتن یاہو کا موقف اس سے بالکل مختلف تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس کا جواب دراصل امن منصوبے کی تردید ہے، اور اسرائیل چاہتا ہے کہ امریکہ اس پر ردعمل دینے سے قبل اسرائیلی مؤقف سے ہم آہنگ ہو، تاکہ یہ تاثر نہ ابھرے کہ حماس نے کوئی مثبت پیش قدمی کی ہے۔
یہ گفتگو نہ صرف دونوں رہنماؤں کے درمیان پالیسی اختلافات کو ظاہر کرتی ہے بلکہ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی کوششوں میں اتفاقِ رائے پیدا کرنا اب بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں