سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ فراڈیوں نے فیک کالز اور واٹس ایپ کے ذریعے اراکین سینیٹ کو بھی لوٹ لیا ہے،
جس پر سینیٹرز نے فوری ریکوری اور تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر علی ظفر کی زیر صدارت پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد میں ہوا، جہاں وزارت اطلاعات و نشریات اور نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) کے حکام نے تفصیلی بریفنگ دی۔ اجلاس میں حکمران جماعت کے سینیٹر عرفان صدیقی کے نام سے 9 اراکین قومی اسمبلی کو مالی فراڈ کا نشانہ بنائے جانے کا انکشاف کیا گیا۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے بتایا کہ میرے نام سے اراکین سے پیسے مانگے جاتے ہیں، 9 اراکین ان کے جھانسے میں آ گئے اور چار مرتبہ شکایات درج کرا چکا ہوں، تاہم ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ قائمہ کمیٹی نے این سی سی آئی اے سے اس معاملے پر رپورٹ طلب کر لی ہے۔ حکام نے بتایا کہ سینیٹر عرفان صدیقی کے کیس میں 13 لاکھ روپے ریکور کیے جا چکے ہیں اور 4 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، اصل ملزم کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ واٹس ایپ کے ذریعے ہیکنگ کے مقدمات میں بھی گزشتہ 5 ماہ میں ایک کروڑ روپے ریکور کیے گئے ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر وقار مہدی نے سرکاری ٹی وی کے ایک اینکر کی جانب سے سندھی قوم کے خلاف نازیبا الفاظ کے استعمال پر احتجاج کیا، جس پر قائمہ کمیٹی نے اینکر کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج کرانے کی سفارش کی۔ این سی سی آئی اے نے بتایا کہ انہوں نے 10 صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کیے ہیں، جن میں مالی فراڈ کے 611 اور ہراسمنٹ کے 320 مقدمات شامل ہیں۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ غیر قانونی طور پر حاصل کردہ سمز دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔ سینیٹر پرویز رشید نے بھی کہا کہ سینیٹ میں تقریر کے بعد ان کے خلاف گالم گلوچ اور دھمکیاں دی گئیں لیکن کوئی مدد نہیں ملی۔ قائمہ کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ صوبوں میں پیکا ایکٹ کے تحت 372 غیر قانونی مقدمات درج کیے گئے ہیں، جبکہ نئے قانون کے تحت یہ مقدمات این سی سی آئی اے کو بھیجے جائیں گے۔ قائمہ کمیٹی نے صوبوں میں غیر قانونی مقدمات کے اندراج پر ذیلی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا۔ اجلاس میں صحافی طیب بلوچ بھی پیش ہوئے، جنہیں چیئرمین نے کہا کہ اپنی درخواست تحریری طور پر جمع کرائیں تاکہ تمام فریقین کو سنا جا سکے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں