راولپنڈی (09 اکتوبر 2025)
معروف ماہر امراض چشم ڈاکٹر طیب افغانی نے کہا ہے کہ سرکاری اور نجی شعبوں بشمول الشفاء ٹرسٹ کی کوششوں سے پاکستان میں نابینائی کی شرح جو 1990 میں 1.78 فیصد تھی اب کم ہو کر اب 0.5 فیصد رہ گئی ہے۔
انھوں نے خبردار کیا ہے کہ جینیاتی اور طرزِ زندگی سے جڑی نئی آنکھوں کی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے لیے فوری پالیسی اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو پوری قوم کی توجہ اور عملی اقدام کا متقاضی ہے۔ورلڈ سائٹ ڈے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر طیب افغانی نے کہا کہ پاکستان میں جینیاتی بیماریاں نابینائی کی ایک بڑی وجہ بنتی جا رہی ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے الشفا ٹرسٹ نے ملک کا پہلا جنیاتی جانچ کا مرکز قائم کیا ہے جو صحت سے متعلق آگاہی، مستند جینیاتی مشاورت اور جین تجزیے کے ذریعے بیماریوں کی بروقت تشخیص کر رہا ہے۔پروفیسر افغانی نے کہا کہ ذیابیطس کے علاوہ مایوپیا پاکستان سمیت دنیا بھر میں وبائی شکل اختیار کر رہا ہے۔
انہوں نے بچوں کے لیے طرزِ زندگی میں بہتری اور اسکرین کے استعمال کو محدود کرنے پر زور دیاجس کے لیے اسکول ویژن اسکریننگ پروگرام اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اب تک الشفا ٹرسٹ پورے ملک میں 30 لاکھ سے زائد بچوں کا معائنہ کر چکا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ٹرسٹ راولپنڈی، مظفرآباد، چکوال، کوہاٹ، سکھر اور گلگت میں اپنے چھ اسپتال چلا رہا ہے، جب کہ لاہور میں نیا اسپتال 2027 تک فعال ہو جائے گا، جو ایک امید افزا پیش رفت ہے۔ ٹرسٹ ہر سال 150 سے زائد مفت آنکھوں کے کیمپ لگاتا جس میں علاج اورآپریشنز کیے جاتے ہیں ۔ تقریباً 80 فیصد مریضوں کو بالکل مفت علاج فراہم کیا جاتا ہے جو ٹرسٹ کے خدمتِ خلق کے عزم کا ثبوت ہے۔ڈاکٹر افغانی نے مطالبہ کیا کہ آنکھوں کی نگہداشت اور دیہی علاقوں میں صحت کے بنیادی ڈھانچے کی بہتری میں سرمایہ کاری کی جائے۔ ملک میں ماہرینِ چشم کی کمی اور سہولیات کی غیر مساوی تقسیم غریب طبقے کو مہنگے نجی علاج پر مجبور کرتی ہے جس سے غربت اور پیداواری صلاحیت میں کمی جیسے معاشی و سماجی مسائل جنم لے رہے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں