حالیہ سیلاب نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کردی ہے کہ پاکستان موسمیاتی آفات کے مقابلے میں کس قدر کمزور ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے، فصلیں اور مویشی تباہ ہوگئے اور دیہی معیشتیں بکھر کر رہ گئیں۔ صرف پنجاب میں 45 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے اور 131 سے زیادہ جانیں ضائع ہوئیں۔ خیبر پختونخوا میں اچانک آنے والے طوفانی سیلاب اور بادل پھٹنے کے واقعات نے 200 سے زیادہ انسانی زندگیاں نگل لیں، خصوصاً سوات، شانگلہ اور بونیر کے اضلاع میں۔ ہزاروں گھر منہدم ہوگئے، بستیاں پانی میں ڈوب گئیں اور دیہات بنیادی سہولیات سے کٹ گئے۔
زرعی شعبہ، جو ملک کی دو تہائی آبادی کی روزی روٹی کا سہارا ہے، بدترین تباہی کا شکار ہوا۔ پنجاب میں تقریباً 22 لاکھ ایکڑ زرعی زمین زیرِ آب آگئی، جس سے چاول، گنا، مکئی اور کپاس جیسی فصلیں مکمل طور پر برباد ہوگئیں۔ یہ نقصان محض ایک موسمی دھچکا نہیں بلکہ قومی معیشت، غذائی تحفظ اور برآمدات کے لیے براہِ راست خطرہ ہے۔
اسی طرح مویشیوں کے نقصانات بھی انتہائی تشویشناک ہیں۔ پنجاب میں 15 لاکھ سے زیادہ جانوروں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا پڑا لیکن پھر بھی ہزاروں مویشی ہلاک ہوگئے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں منہ کھر (FMD) اور پی پی آر (PPR) جیسی بیماریوں کے پھیلنے کا خدشہ بڑھ رہا ہے جو طویل المیعاد پیداوار کو متاثر کرے گا۔ خیبر پختونخوا میں سرکاری رپورٹوں کے مطابق 6 ہزار سے زائد جانور ہلاک ہوئے، جن میں بکریاں، بچھڑے، گائیں، بھینسیں اور پولٹری شامل ہیں۔ چارہ تقریباً 28 کروڑ 60 لاکھ روپے کا ضائع ہوا جبکہ مویشیوں کے مجموعی نقصانات کا تخمینہ ایک ارب 57 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔ یہ چھوٹے کسانوں کے لیے زندگی کو مفلوج کردینے والے نقصانات ہیں، جن سے بحالی برسوں میں ممکن ہوگی۔
انفراسٹرکچر کی تباہی بھی خوفناک رہی۔ خیبر پختونخوا میں 1450 کلومیٹر سے زائد سڑکیں اور 73 پل تباہ ہوئے۔ 90 اسکول مکمل طور پر اور ایک ہزار سے زیادہ جزوی طور پر متاثر ہوئے۔ درجنوں صحت مراکز غیر فعال ہوگئے، جس کے باعث پہلے سے کمزور آبادی بنیادی سہولتوں سے محروم ہوگئی۔ پنجاب میں حفاظتی بندوں اور آبپاشی ڈھانچوں کے ٹوٹنے سے صورتحال مزید خراب ہوگئی اور بحالی کے کاموں میں شدید مشکلات پیدا ہوئیں۔
یہ آفات اب صرف قدرتی مظاہر نہیں رہیں، بلکہ موسمیاتی تبدیلی نے انہیں کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ بے ترتیب بارشیں، گلیشیئر پگھلنے اور بادل پھٹنے جیسے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں جبکہ جنگلات کی کٹائی اور بے ہنگم شہری آبادیاں خطرات میں اضافہ کر رہی ہیں۔ پاکستان، جو عالمی کاربن اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتا ہے، دنیا کے دس سب سے زیادہ موسمیاتی خطرات سے دوچار ممالک میں شامل ہے۔ لیکن بار بار انتباہات کے باوجود، ملک ابھی تک موسمیاتی موافقت اور آفات سے بچاؤ کے لیے مؤثر اقدامات کرنے میں پیچھے ہے۔
گزشتہ برسوں میں آنے والے تباہ کن سیلابوں نے بھی ایسے ہی نقصانات کیے تھے، لیکن افسوس کہ حکومت نے ان سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ آج بھی وہی پرانے بند، ناکارہ وارننگ سسٹمز اور ادارہ جاتی کمزوری موجود ہیں جو پہلے بھی تباہی کا سبب بنے۔ اربوں روپے کی امداد اور بحالی کے دعوؤں کے باوجود زمینی حقائق نہیں بدلے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ان بار بار ہونے والی تباہیوں کی ذمہ داری کون قبول کرے گا؟ کیا یہ کوتاہی متعلقہ اداروں کی نااہلی ہے، یا پالیسی سازوں کی بے حسی؟ جب تک جوابدہی اور شفافیت کو یقینی نہیں بنایا جاتا، عوام ہر سال اسی المیے کا شکار ہوتے رہیں گے۔
متاثرین کے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ بھاری نقصانات کون پورے کرے گا اور کس طرح؟ لاکھوں خاندان پہلے ہی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، جن کے پاس نہ بچت ہے اور نہ ہی وسائل کہ وہ دوبارہ اپنے گھروں، کھیتوں اور مویشیوں کو سنبھال سکیں۔ کیا وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان کے نقصان کا ازالہ کریں گی یا یہ بوجھ بھی عوام ہی پر ڈال دیا جائے گا؟ اگر فوری اور مؤثر معاوضے، روزگار کے مواقع اور بحالی کے پیکج نہ دیے گئے تو یہ آفت غربت، بھوک اور بے روزگاری کے ایک نئے بحران کو جنم دے گی۔
پرانے بند اور ناقص نکاسی آب کے نظام، کمزور وارننگ سسٹمز، اور کسانوں و مویشی پالنے والوں کے لیے انشورنس یا امدادی اسکیموں کی کمی، دیہی آبادی کو ہر سال خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ موسمیاتی موافق زراعت، جدید آبی نظم و نسق اور ویٹرنری سہولتیں ابھی تک ناکافی ہیں۔ یہ خلا حکومت کی سستی اور عدم سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ تباہی حکومت کے تمام سطحوں پر پالیسی سازوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ تاخیر سے ردعمل، ناقص منصوبہ بندی اور اداروں کے درمیان کمزور تعاون نے نقصانات کو کئی گنا بڑھا دیا۔ اگر موسمیاتی موافقت کو قومی سلامتی کی ترجیح نہ بنایا گیا تو پاکستان ہر سال اربوں روپے کے ایسے نقصانات اٹھاتا رہے گا جو بہتر منصوبہ بندی اور تیاری سے روکے جا سکتے ہیں۔
—
ڈاکٹر علمدار حسین ملک
ایڈوائزر ویٹرنری سائنسز، یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز، سوات
[email protected]
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں